Wednesday, 11 April 2018

کس قدر سخت ہے اے جان جہاں ہجر کی رات



کس قدر سخت ہے اے جان جہاں ہجر کی رات
کوئی آواز،نہ آہٹ، نہ ہی جینے کا سراغ
مہر بہ لب ہے خموشی بھی کئی برسوں سے
چاند تارے ہیں فلک پر نہ زمین پر ہے چراغ
روشنی بھی میری تقدیر سے خائف ہو کر
میرے آنگن سے بہت دور رہا کرتی ہے
حبس اتنا ہے کہ منہ زور ہوا کی سانسیں
میری دہلیز کو چھو لیں تو اکھڑ سکتی ہیں
اور ایسے میں ستم دیکھ کہ اے جان جہاں
ذہن کے بند کواڑوں پہ ہے دستک دیتا
زینہ شب سے اترتا تیری یادوں کا ہجوم
خشک پتوں سا بکھرتا تیرے وعدوں کا ہجوم
کوچہ جاں میں یونہی رات گئے پھیلتی ہے
چند بکھرے ہوئے،ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کسک
جیسے سوکھے ہوئے بےجان گلابوں کی مہک
سوچ . . ایسے میں در_یار سے ٹھکرائے ہوئے
اپنی سانسوں سے بھی
دھڑکن سے بھی اکتائے ہوئے'
ہم اسیران وفا، زہر_جفا کھائے ہوئے
کس طرح جینے کا سامان کیا کرتے ہیں؟
اور ہر روز___ میری جان کیا کرتے ہیں___!!

No comments:

Post a Comment

...........‏فراق کیا ہے اگر، یادِ یار دل میں رہے خزاں سے کچھ نہیں ہوتا ، بہار دل میں رہے جون ایلیا