Wednesday, 11 April 2018

سنو زندگی



سنو زندگی!
ہاتھ تھامو مرا!
مجھ کو اس راہِ پُرخار سے
دور تم لے چلو
اُس جگہ میں جہاں
چند لمحے سہی ۔۔۔ جی سکوں
کہ
یہاں یاد کے سائے گہرے ہیں اتنے
کہ کچھ بھی دکھائی، سجھائی نہیں دے رہا ہے مجھے
ہر قدم پر گئے وقت کے تذکرے
جن سے ٹکرا کے میں گرچہ گرتا نہیں
لڑکھڑاتا تو ہوں
اور یہ لڑکھڑاہٹ اذیت بھری ایک سچائی ہے
جس میں گرنے سنبھلنے کی اس
مختصر جنگ میں
جیت جاتا ہوں میں
ہار جاتا ہے دل

No comments:

Post a Comment

...........‏فراق کیا ہے اگر، یادِ یار دل میں رہے خزاں سے کچھ نہیں ہوتا ، بہار دل میں رہے جون ایلیا